EN हिंदी
جلوہ جو ترے رخ کا احساس میں ڈھل جائے | شیح شیری
jalwa jo tere ruKH ka ehsas mein Dhal jae

غزل

جلوہ جو ترے رخ کا احساس میں ڈھل جائے

فنا بلند شہری

;

جلوہ جو ترے رخ کا احساس میں ڈھل جائے
اس عالم ہستی کا عالم ہی بدل جائے

ان مست نگاہوں کا اک دور جو چل جائے
ہم درد کے ماروں کی تقدیر بدل جائے

مصروف عبادت کا یوں ختم ہو افسانہ
سر ہو تری چوکھٹ پہ دم میرا نکل جائے

تو لاکھ بچا دامن در سے نہ اٹھوں گا میں
ان میں سے نہیں ہوں میں ٹالے سے جو ٹل جائے

اے جان کرم مجھ پر ایک چشم کرم کر دے
ایسا نہ ہو دیوانہ قدموں پہ مچل جائے

حسرت بھری آنکھوں میں اک پل کے لئے آ جا
دیکھے جو تیری صورت دیوانہ بہل جائے

تو آگ محبت کی بھر دے مری نس نس میں
ہر ذرہ مرے دل کا اس آگ میں جل جائے

بجلی ترے جلووں کی گر جائے کبھی مجھ پر
اے جان مری ہستی اس آگ میں جل جائے

اے چارہ گرو دیکھو بیمار محبت ہوں
تدبیر کرو ایسی دل جس سے بہل جائے

تو جذب محبت میں کر لے وہ اثر پیدا
جس سمت نظر اٹھے اک تیر سا چل جائے

پامال رہ الفت ہو جاؤں محبت میں
وہ شوخ اگر مجھ کو قدموں سے مسل جائے

تقدیر کرے احساں یوں بعد فناؔ مجھ پر
خاک در جانانہ منہ پر مرے مل جائے