جلوۂ حسن کو محروم تماشائی کر
بے نیازی صفت لالۂ صحرائی کر
ہاں بڑے شوق سے شمشیر کے اعجاز دکھا
ہاں بڑے شوق سے دعوائے مسیحائی کر
میں تو مجبور ہوں عادت سے کہے جاؤں گا
تو کوئی بات نہ سن اور نہ پذیرائی کر
اپنے بیمار کی یہ آخری امید بھی دیکھ
ملک الموت سے کہتا ہے مسیحائی کر
مجھ کو لے جا کے در یار پہ قاصد نے کہا
خامہ فرسائی نہ کر ناصیہ فرسائی کر
ہم تری صورت انکار کو پہچانتے ہیں
وہ تبسم تو شریک لب گویائی کر
غزل
جلوۂ حسن کو محروم تماشائی کر
حفیظ جالندھری