جلوۂ حسن اگر زینت کاشانہ بنے
دسترس شمع کو حاصل ہو تو پروانہ بنے
دل نہ ہشیار رہے اور نہ دیوانہ بنے
یہ تمنا ہے کہ خاک در جانانہ بنے
حسن اے حسن یہ ہے تیری کرشمہ سازی
کعبہ بن جائے کہیں اور کہیں بت خانہ بنے
ہوش اور کشمکش ہوش الٰہی توبہ
وہی ہشیار ہے الفت میں جو دیوانہ بنے
اس تمنا سے میں اے عشق خجل ہوتا ہوں
دل کی تقدیر کہ وہ حسن کا نذرانہ بنے
حسن محسوس سے ہے جلوۂ مطلق مطلوب
نہ سہی کعبہ تو دل مائل بت خانہ بنے
مے پرستی کا معین کوئی معیار نہیں
جس کا جو ظرف ہو ساقی وہی پیمانہ بنے
ان کی سرشار نگاہوں کے تصدق کہئے
حاصل کیف جو پیمانہ بہ پیمانہ بنے
سوز الفت کے خدا شمع نہیں ہے نہ سہی
پھونک اتنا مری ہستی کو کہ پروانہ بنے
ساغر دل میں ہے کیفیت صہبائے الست
بوند بوند اس کی نہ کیوں حاصل مے خانہ بنے
آپ اک روز توجہ سے جو سن لیں سر بزم
دل کی روداد کا ہر لفظ اک افسانہ بنے
آج مجھ کو وہ مئے ہوش ربا دے ساقی
اور تو اور دل اپنے سے بھی بیگانہ بنے
کاش مٹ مٹ کے مری ہستیٔ ناچیز غبارؔ
خاک ہو جائے تو خاک در جانانہ بنے
غزل
جلوۂ حسن اگر زینت کاشانہ بنے
غبار بھٹی