EN हिंदी
جلتے رہنا کام ہے دل کا بجھ جانے سے حاصل کیا | شیح شیری
jalte rahna kaam hai dil ka bujh jaane se hasil kya

غزل

جلتے رہنا کام ہے دل کا بجھ جانے سے حاصل کیا

پرویز شاہدی

;

جلتے رہنا کام ہے دل کا بجھ جانے سے حاصل کیا
اپنی آگ کے ایندھن ہیں ہم ایندھن کا مستقبل کیا

بولو نقوش پا کچھ بولو تم تو شاید سنتے ہو
بھاگ رہی ہے راہ گزر کے کان میں کہہ کر منزل کیا

ڈوبنے والو! دیکھ رہے ہو تم تو کشتی کے تختے
دیکھو دیکھو غور سے دیکھو دوڑ رہا ہے ساحل کیا

ان پڑھ آندھی گھس پڑتی ہے توڑ کے پھاٹک محلوں کے
''اندر آنا منع ہے'' لکھ کر لٹکانے سے حاصل کیا

قتل وقار عشق کا مجرم جہل ہوس کاراں ہی نہیں
ننگے اس حمام میں سب ہیں عالم کیا اور جاہل کیا

پروانے اب اپنی اپنی آگ میں جلتے رہتے ہیں
شعلوں کے بٹوارے سے تھا مقصد شمع محفل کیا

ٹوٹی دھنک کے ٹکڑے لے کر بادل روتے پھرتے ہیں
کھینچا تانی میں رنگوں کی سورج بھی ہے شامل کیا