EN हिंदी
جلتا رہا وہ عمر بھر اپنی ہی آگ میں | شیح شیری
jalta raha wo umr-bhar apni hi aag mein

غزل

جلتا رہا وہ عمر بھر اپنی ہی آگ میں

عین سلام

;

جلتا رہا وہ عمر بھر اپنی ہی آگ میں
تیرے لبوں کی آنچ نہ تھی جس کے بھاگ میں

چھوٹی سی بات تھی مگر اک روگ بن گئی
راحت ملاپ ہی میں رہی ہے نہ تیاگ میں

کیسے کہوں اسے یہ دلہن ہے بہار کی
پھولوں کا خوں مہکتا ہے جس کے سہاگ میں

وہ حسن بن کے گل کی تپش میں سما گیا
ہنس ہنس کے جل گیا جو ترے غم کی آگ میں

کہنے کو میرا ساز ہے لیکن کسے خبر
کس کس کی دھن سمائی ہے ایک ایک راگ میں

اک داغ بن کے دل میں سلگتا ہے اے سلامؔ
وہ پھول جس کا لمس نہیں اپنے بھاگ میں