EN हिंदी
جلسوں میں گزرنے لگی پھر رات تمہاری | شیح شیری
jalson mein guzarne lagi phir raat tumhaari

غزل

جلسوں میں گزرنے لگی پھر رات تمہاری

منیرؔ  شکوہ آبادی

;

جلسوں میں گزرنے لگی پھر رات تمہاری
اس بھیڑ میں جاتی نہ رہے بات تمہاری

ہے جلوہ گر دیر و حرم ذات تمہاری
ٹھہری ہے دو عملہ میں ملاقات تمہاری

جلوہ صفت شمع ہے گردن سے کمر تک
کس نور کے سانچے میں ڈھلی گات تمہاری

کھولے ہوئے گیسو نہ دکھائے مجھے صورت
مہمان مرے گھر نہ ہوئے رات تمہاری

پچیسی بہت کھیلتی ہو غیر سے اے جاں
کوڑی کی نہ ہو جائے کہیں بات تمہاری

آنکھوں میں نہیں سلسلۂ اشک شب و روز
تسبیح پڑھا کرتے ہیں دن رات تمہاری

کٹوا کے مرے دست تمنا کو وہ بولے
دو ہاتھ گھٹی آج ملاقات تمہاری

فرماتے ہیں ہنس ہنس کے مجھے دیکھ کے گریاں
لے ڈوبے گی آخر تمہیں برسات تمہاری

مستی جو لگا کر مجھے باتوں میں اڑاؤ
اڑ جائے دھواں بن کے یہ ظلمات تمہاری

پامالوں کی آنکھوں میں سبک مجھ کو نہ کرنا
ڈرتا ہوں کہ ہلکی نہ پڑے بات تمہاری

کہتے ہیں تغافل سے مجھے زہر کھلا کر
ان روزوں بہت تلخ ہے اوقات تمہاری

جو کچھ کہو برعکس کوئی کہہ نہیں سکتا
کیا تاب ہے الٹے جو کوئی بات تمہاری

کہتا ہوں کہ بوسہ بھی ملا جان بھی پائی
وعدہ نہ کرو خیر عنایات تمہاری

آنکھوں میں بھی سینہ میں بھی دل میں بھی تمہیں ہو
کس پردہ میں پوشیدہ نہیں ذات تمہاری

حوروں میں ہوا کرتی ہیں تقریر کی نقلیں
ڈر ہے نہ بگڑ جائے کہیں بات تمہاری

پہنا کے کفن خاک کے پردے میں چھپایا
دہرے دیے خلعت یہ عنایات تمہاری

ہونٹوں سے جو پھر جاتی ہے منہ کی طرف اے جان
کیا نشہ میں بہکی ہوئی ہے بات تمہاری

کی قطع عبث زلف نہ تھا کوئی گرفتار
تنہا رہے بے لطف کٹی رات تمہاری

بد گو ہو یہ افسانہ رہے اہل جہاں میں
قصہ ہو بگڑ جائے اگر بات تمہاری

زخم ایک کٹاری کا عنایت نہیں ہوتا
کوڑی کوئی ملتی نہیں خیرات تمہاری

الجھا ہے مگر زلف میں تقریر کا لچھا
سلجھی ہوئی ہم نے نہ سنی بات تمہاری

اللہ رے صفا منہ نظر آتا ہے بدن میں
آئینہ ہے اے جان کرامات تمہاری

فرمائشوں کا بوجھ رقیبوں سے نہ اٹھا
صد شکر کہ ہلکی نہ ہوئی بات تمہاری

شیریں سے نہ ہو دل کہیں فرہاد کا کھٹا
ڈرتا ہوں کہ شیریں ہے بہت بات تمہاری

کیا شعر مزے دار منیرؔ آج پڑھے ہیں
ہر بات میں اعجاز ہے کیا بات تمہاری