EN हिंदी
جلنے کا ہنر صرف فتیلے کے لیے تھا | شیح شیری
jalne ka hunar sirf fatile ke liye tha

غزل

جلنے کا ہنر صرف فتیلے کے لیے تھا

رمز عظیم آبادی

;

جلنے کا ہنر صرف فتیلے کے لیے تھا
روغن تو چراغوں میں وسیلے کے لیے تھا

صندل کا وہ گہوارہ جو نیلام ہوا ہے
اک راج گھرانے کے ہٹیلے کے لیے تھا

عیاش طبیعت کا ہے آئینہ اک اک اینٹ
یہ رنگ محل ایک رنگیلے کے لیے تھا

کل تک جو ہرا پیڑ تھا کیوں سوکھ گیا ہے
جب دھوپ کا موسم کسی گیلے کے لیے تھا

مسجد کا کھنڈر تھا نہ وہ مندر ہی کا ملبہ
جو گاؤں میں جھگڑا تھا وہ ٹیلے کے لیے تھا

کانٹوں کا تصرف اسے اب کس نے دیا ہے
یہ پھول تو گلشن میں رسیلے کے لیے تھا

اب رہتا ہے جس میں بڑے سرکار کا کنبہ
دالان تو گھوڑے کے طبیلے کے لیے تھا

شہرت کی بلندی پہ مجھے بھول گیا ہے
کیا نام مرا رمزؔ وسیلے کے لیے تھا