EN हिंदी
جلی ہیں درد کی شمعیں مگر اندھیرا ہے | شیح شیری
jali hain dard ki shaMein magar andhera hai

غزل

جلی ہیں درد کی شمعیں مگر اندھیرا ہے

فاروق بخشی

;

جلی ہیں درد کی شمعیں مگر اندھیرا ہے
کہاں ہو کچھ تو کہو دل بہت اکیلا ہے

یہ کیسا زہر فضاؤں میں بھر گیا یارو
ہر ایک آدمی کیوں اس قدر اکیلا ہے

مرے نصیب میں کب ہے یہ روشنی کا نگر
مرے لیے تو یہاں ہر طرف اندھیرا ہے

جلائے رکھنا دیے پیار کے میں آؤں گا
مجھے تمہاری وفا پر بڑا بھروسہ ہے

چمک اٹھے مری پلکوں پہ یاد کے جگنو
یہ کس نے پیار سے پھر آج مجھ کو دیکھا ہے

کہاں کہاں میں اسے ڈھونڈھتا رہا فاروقؔ
جو میری روح کی گہرائیوں میں رہتا ہے