جلی ہیں درد کی شمعیں مگر اندھیرا ہے
کہاں ہو کچھ تو کہو دل بہت اکیلا ہے
یہ کیسا زہر فضاؤں میں بھر گیا یارو
ہر ایک آدمی کیوں اس قدر اکیلا ہے
مرے نصیب میں کب ہے یہ روشنی کا نگر
مرے لیے تو یہاں ہر طرف اندھیرا ہے
جلائے رکھنا دیے پیار کے میں آؤں گا
مجھے تمہاری وفا پر بڑا بھروسہ ہے
چمک اٹھے مری پلکوں پہ یاد کے جگنو
یہ کس نے پیار سے پھر آج مجھ کو دیکھا ہے
کہاں کہاں میں اسے ڈھونڈھتا رہا فاروقؔ
جو میری روح کی گہرائیوں میں رہتا ہے

غزل
جلی ہیں درد کی شمعیں مگر اندھیرا ہے
فاروق بخشی