EN हिंदी
جلا کے دامن ہستی کا تار تار اٹھا | شیح شیری
jala ke daman-e-hasti ka tar tar uTha

غزل

جلا کے دامن ہستی کا تار تار اٹھا

فرید عشرتی

;

جلا کے دامن ہستی کا تار تار اٹھا
کبھی جو نالۂ غم دل سے شعلہ بار اٹھا

خیال و فکر و تمنا کا خون چھپ نہ سکا
زباں خموش تھی لیکن لہو پکار اٹھا

فلک پہ جب بھی حقائق کی سرخیاں ابھریں
زمیں سے کہنہ روایات کا غبار اٹھا

رواں دواں ہے رگ سنگ میں لہو کی طرح
وہ زندگی کا تلاطم جو بار بار اٹھا

رہ حیات میں جب ڈگمگائے میرے قدم
مرا ہی نقش کف پا مجھے پکار اٹھا

فریب وعدۂ فردا کا ذکر کیا کیجے
وہ معتبر ہی تھے کب جن کا اعتبار اٹھا

فریدؔ اہل گلستاں بھی ہوش کھو بیٹھے
کچھ اس ادا سے حجاب رخ بہار اٹھا