جلا ہوں دھوپ میں اک شہر رنگ و بو کے لئے
ملی ہے تشنہ لبی سیر آب جو کے لئے
ترے بدن کی مہک اجنبی سہی لیکن
مرے قریب سے گزری ہے گفتگو کے لئے
جنوں کا پاس وفا کا خیال حسن کا غم
کئی چراغ جلے ایک آرزو کے لئے
نہ آنسوؤں کے ستارے نہ قہقہوں کے گلاب
کوئی تو جشن کرو اپنے ماہ رو کے لئے
نئے سوال نئے تجربے نئے چہرے
ہزار موڑ ہیں اک میری جستجو کے لئے
غزل
جلا ہوں دھوپ میں اک شہر رنگ و بو کے لئے
جاذب قریشی