EN हिंदी
جل کر جس نے جل کو دیکھا | شیح شیری
jal kar jis ne jal ko dekha

غزل

جل کر جس نے جل کو دیکھا

عمران شمشاد

;

جل کر جس نے جل کو دیکھا
تم نے اس پاگل کو دیکھا

خواب دیے اور آئینے میں
آنے والے کل کو دیکھا

وقت کے سب سے اونچے پل سے
آتے جاتے پل کو دیکھا

خواہش کے چنگل سے آگے
حیرت کے جنگل کو دیکھا

صحرا میں اک کرسی دیکھی
کرسی پر سچل کو دیکھا

دیکھیں تشنہ لب کی آنکھیں
آنکھوں کے جل تھل کو دیکھا

بادل جب دریا پر برسا
دریا نے بادل کو دیکھا

موسم نے جب کروٹ بدلی
چادر نے کمبل کو دیکھا

آنکھوں کی گہرائی جانی
پیشانی کے بل کو دیکھا

دلدل کے سبزے سے گزرے
سبزے کے دلدل کو دیکھا

ماضی کے ہر پیڑ پہ ہم نے
مستقبل کے پھل کو دیکھا

لکھنے والو ہاتھ اٹھا لو
کس کس نے مقتل کو دیکھا

تم نے ضدی دیکھے ہوں گے
دل جیسے اڑیل کو دیکھا

مشکل کتنی مشکل میں تھی
مشکل نے جب حل کو دیکھا

کھرچ کھرچ کر شک نے کھدر
مل مل کر ململ کو دیکھا

دریا پیر آباد میں کس نے
شالو اور شل شل کو دیکھا

قینچی جب ڈم ڈم پر جھپٹی
کیکر نے پیپل کو دیکھا

بالٹی گیلن تسلے دیکھے
اور پھر میں نے نل کو دیکھا

دریا کی لہریں گن گن کے
پانی کی بوتل کو دیکھا

حیرم دیو نے سونا کھا کر
چاندی اور پیتل کو دیکھا

دیکھا کیا کیا دیکھ رہا ہے
غور سے جب گوگل کو دیکھا

چینل پر خبریں تو دیکھیں
خبروں کے چینل کو دیکھا