EN हिंदी
جل بھی ملن کے کشٹ کا تھل بھی امین تھا | شیح شیری
jal bhi milan ke kashT ka thal bhi amin tha

غزل

جل بھی ملن کے کشٹ کا تھل بھی امین تھا

ناصر شہزاد

;

جل بھی ملن کے کشٹ کا تھل بھی امین تھا
یہ بھی کبھی تری مری چاہت کا سین تھا

سوچا تو دور تھے کئی فرسنگ اس کے انگ
دیکھا تو سامنے وہ ستارہ جبین تھا

اک عرش تھا جھکا ہوا گرنے کو سوئے فرش
اک جسم صد شگاف سر سطح زین تھا

فتحوں سے ہم کنار بیاباں میں بے مزار
تو معنیٔ مبین تو تشریح دین تھا

دن سن تھے ساجنا کی گرہ میں بندھے ہوئے
پہلو میں پریتما کے یہ جیون رہین تھا

جب روح تھی برہنہ تو پھر جسم پر لباس
ظاہر تھا میں تو کس لئے پردہ نشین تھا

کھینچا تو موج مل اسے بھینچا تو برگ گل
وہ کانچ سے متین کرن سے مہین تھا

نیچے گگن کے نیل کنول کھیتیوں میں ہل
پربت پیا کے بل مرا سینہ زمین تھا

صدقوں بھرے ثبات تھے رسی میں چند ہاتھ
نیزے پہ ایک سر کہ سراپا یقین تھا