EN हिंदी
جل بھی چکے پروانے ہو بھی چکی رسوائی | شیح شیری
jal bhi chuke parwane ho bhi chuki ruswai

غزل

جل بھی چکے پروانے ہو بھی چکی رسوائی

شہزاد احمد

;

جل بھی چکے پروانے ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی

اب دل کو کسی کروٹ آرام نہیں ملتا
اک عمر کا رونا ہے دو دن کی شناسائی

اب وسعت عالم بھی کم ہے مری وحشت کو
کیا مجھ کو ڈرائے گی اس دشت کی پہنائی

جی میں ہے کہ اس در سے اب ہم نہیں اٹھیں گے
جس در پہ نہ جانے کی سو بار قسم کھائی