جل بھی چکے پروانے ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
اب دل کو کسی کروٹ آرام نہیں ملتا
اک عمر کا رونا ہے دو دن کی شناسائی
اب وسعت عالم بھی کم ہے مری وحشت کو
کیا مجھ کو ڈرائے گی اس دشت کی پہنائی
جی میں ہے کہ اس در سے اب ہم نہیں اٹھیں گے
جس در پہ نہ جانے کی سو بار قسم کھائی

غزل
جل بھی چکے پروانے ہو بھی چکی رسوائی
شہزاد احمد