جیسی خواہش ہوتی ہے کب ہوتا ہے
چھوڑو بھی اب یار چلو سب ہوتا ہے
ہم بے کار ہی سہمے سہمے رہتے ہیں
جو ہونا ہوتا ہے جب جب ہوتا ہے
میری بوڑھی دادی اکثر کہتی تھیں
کوئی نہیں ہوتا جس کا رب ہوتا ہے
دل بستی کو اجڑے برسوں بیت گئے
یاد چراغاں اب بھی ہر شب ہوتا ہے
سارے شاعر شعر کہاں کہہ پاتے ہیں
اکثر تو لفظوں کا کرتب ہوتا ہے

غزل
جیسی خواہش ہوتی ہے کب ہوتا ہے
فاروق بخشی