EN हिंदी
جیسے میں دیکھتا ہوں لوگ نہیں دیکھتے ہیں | شیح شیری
jaise main dekhta hun log nahin dekhte hain

غزل

جیسے میں دیکھتا ہوں لوگ نہیں دیکھتے ہیں

امجد اسلام امجد

;

جیسے میں دیکھتا ہوں لوگ نہیں دیکھتے ہیں
ظلم ہوتا ہے کہیں اور کہیں دیکھتے ہیں

تیر آیا تھا جدھر یہ مرے شہر کے لوگ
کتنے سادا ہیں کہ مرہم بھی وہیں دیکھتے ہیں

کیا ہوا وقت کا دعویٰ کہ ہر اک اگلے برس
ہم اسے اور حسیں اور حسیں دیکھتے ہیں

اس گلی میں ہمیں یوں ہی تو نہیں دل کی تلاش
جس جگہ کھوئے کوئی چیز وہیں دیکھتے ہیں

شاید اس بار ملے کوئی بشارت امجدؔ
آئیے پھر سے مقدر کی جبیں دیکھتے ہیں