جیسے کسی سے وصل کا وعدہ وفا ہوا
یوں صبح دم چراغ سے شعلہ جدا ہوا
زہراب غم کا کوئی اثر ہو تو کس طرح
سینے میں دل ہے دل بھی لہو میں بجھا ہوا
تجھ سے سدا بہار کو اندیشۂ خزاں
پورا نہ ہو خدا کرے تیرا کہا ہوا
اس چشم مے فروش سے پی جس کا ایک عمر
اک شام کا بھی قرض بہ مشکل ادا ہوا
دیتا ہے مجھ کو ترک محبت کے مشورے
تیرے سوا بھی ہے کوئی دل میں چھپا ہوا
جاؤں کہاں کہ ترک تمنا کے باوجود
ہے ہر طرف حصار تمنا کھنچا ہوا
غزل
جیسے کسی سے وصل کا وعدہ وفا ہوا
صہبا اختر