EN हिंदी
جیسے کسی کو خواب میں میں ڈھونڈھتا رہا | شیح شیری
jaise kisi ko KHwab mein main DhunDhta raha

غزل

جیسے کسی کو خواب میں میں ڈھونڈھتا رہا

سید مبارک شاہ

;

جیسے کسی کو خواب میں میں ڈھونڈھتا رہا
دلدل میں دھنس گیا تھا مگر بھاگتا رہا

بے چین رات کروٹیں لیتی تھیں بار بار
لگتا ہے میرے ساتھ خدا جاگتا رہا

اپنی اذاں تو کوئی مؤذن نہ سن سکا
کانوں پہ ہاتھ رکھے ہوئے بولتا رہا

ساعت دعا کی آئی تو حسب نصیب میں
خالی ہتھیلیوں کو عبث گھورتا رہا

اس کی نظر کے سنگ سے میں آئنہ مثال
ٹوٹا تو ٹوٹ کر بھی اسے دیکھتا رہا

انساں کسی بھی دور میں مشرک نہ تھا کبھی
پتھر کے نام پر بھی تجھے پوجتا رہا