جیسے کہ اک فریم ہو تصویر کے بغیر
ہم خواب دیکھتے رہے تعبیر کے بغیر
لازم نہیں کہ پیار میں رشتہ ہو جسم کا
خوشبو ہے ساتھ پھول کے زنجیر کے بغیر
کوشش تو کر کے دیکھنا تقدیر کچھ بھی ہو
مت ہار ماننا کبھی تدبیر کے بغیر
ملکوں کی فکر چھوڑ کے قبضہ دلوں پہ کر
مل جائے گا جہان یہ تسخیر کے بغیر
حالات کا دباؤ ہے امداد سب قبول
لیکن سفید پوش ہوں تشہیر کے بغیر
واعظ کرے ہے نیکیاں لالچ میں حور کی
تب ہی تو اس کی بات ہے تاثیر کے بغیر

غزل
جیسے کہ اک فریم ہو تصویر کے بغیر
سید انوار احمد