EN हिंदी
جیسے کشتی اور اس پر بادباں پھیلے ہوئے | شیح شیری
jaise kashti aur is par baadban phaile hue

غزل

جیسے کشتی اور اس پر بادباں پھیلے ہوئے

تسلیم الہی زلفی

;

جیسے کشتی اور اس پر بادباں پھیلے ہوئے
میرے سر پر اس طرح ہیں آسماں پھیلے ہوئے

چل رہے ہیں دھوپ سے تپتی ہوئی سڑکوں پہ لوگ
اور سائے سائباں در سائباں پھیلے ہوئے

دیکھیے کب تک رہے تنہا پرندے کی اڑان
ہیں سمندر ہی سمندر بے کراں پھیلے ہوئے

جاگتی آنکھوں کے خواب اور تیرے بالوں کے گلاب
میرے بستر پر ہیں اب بھی میری جاں پھیلے ہوئے

سانحہ یہ ہے کہ اب تک واقعہ کوئی نہیں
تذکرے ہیں داستاں در داستاں پھیلے ہوئے

میں تو ساری عمر اس کی سمت میں چلتا رہا
فاصلے ہیں پھر بھی زلفیؔ درمیاں پھیلے ہوئے