جیسے جیسے عالم امکاں بدلتا جائے گا
ذہن انساں نت نئے سانچوں میں ڈھلتا جائے گا
ہو سکے تو اپنی خوشیاں درد کے ماروں میں بانٹ
زندگی کا کارواں تو یوں ہی چلتا جائے گا
عین ممکن ہے اسے دنیا ہوس کا نام دے
دل کا جو ارمان بھی دل سے نکلتا جائے گا
میرے اس اک اشک کی قیمت مرے ہمدم نہ پوچھ
آنکھ سے جو تیرے دامن تک مچلتا جائے گا
نازؔ اس کے ہو نہیں سکتے مراحل سد راہ
جس کو منزل تک پہنچنا ہے وہ چلتا جائے گا
غزل
جیسے جیسے عالم امکاں بدلتا جائے گا
ناز لائلپوری