جیسے ہوتی آئی ہے ویسے بسر ہو جائے گی
زندگی اب مختصر سے مختصر ہو جائے گی
گیسوئے عکس شب فرقت پریشاں اب بھی ہے
ہم بھی تو دیکھیں کہ یوں کیوں کر سحر ہو جائے گی
انتظار منزل موہوم کا حاصل یہ ہے
ایک دن ہم پر عنایت کی نظر ہو جائے گی
سوچتا رہتا ہے دل یہ ساحل امید پر
جستجو آئینۂ مد و جزر ہو جائے گی
درد کے مشتاق گستاخی تو ہے لیکن معاف
اب دعا اندیشہ یہ ہے کارگر ہو جائے گی
سانس کے آغوش میں ہر سانس کا نغمہ یہ ہے
ایک دن امید ہے ان کو خبر ہو جائے گی
غزل
جیسے ہوتی آئی ہے ویسے بسر ہو جائے گی
میراجی