EN हिंदी
جیسے ہوں لاشیں دفن پرانے کھنڈر کی بنیاد تلے | شیح شیری
jaise hon lashen dafn purane khanDar ki buniyaad tale

غزل

جیسے ہوں لاشیں دفن پرانے کھنڈر کی بنیاد تلے

ندیم سرسوی

;

جیسے ہوں لاشیں دفن پرانے کھنڈر کی بنیاد تلے
احساس دبے ہیں کتنے ہی مری نا گفتہ روداد تلے

وہ ذات تو ایک ہی ذات ہے نہ ہر لمحہ جس کو ڈھونڈھتا ہے
مومن نور ایمان تلے کافر سنگ الحاد تلے

امروز و فردا کرتے رہے تم اور یہاں اہل حسرت
کتنے ہی کچلے جاتے رہے بار یوم میعاد تلے

کل تک نعرہ آزادی کا جن کے ہونٹوں کی زینت تھا
وہ اطمینان سے بیٹھے ہیں اب خود دام صیاد تلے

کر ظلم بپا لیکن تاریخ کا یہ سچ اپنے ذہن میں رکھ
کتنے ہی ظالم دفن ہوئے مظلوموں کی فریاد تلے

ہم غرب زدہ زہریلی فضا کی زد میں آ ہی سکتے نہیں
ہم کرتے ہیں تعمیر تمدن تہذیب اجداد تلے

وہ عقل گرا ہم عشق گرا دونوں میں تقابل کیسا ندیمؔ
دونوں ہی ازل سے رہتے ہیں جب فہرست اضداد تلے