EN हिंदी
جیسے بھی یہ دنیا ہے جو کچھ بھی زمانا ہے | شیح شیری
jaise bhi ye duniya hai jo kuchh bhi zamana hai

غزل

جیسے بھی یہ دنیا ہے جو کچھ بھی زمانا ہے

باسط بھوپالی

;

جیسے بھی یہ دنیا ہے جو کچھ بھی زمانا ہے
سب تیری کہانی ہے سب میرا فسانا ہے

اک برق سیہ مستی اک شعلۂ مدہوشی
مینا سے گرانا ہے ساغر سے اٹھانا ہے

تم تک نہ پہنچ جائے لو شمع محبت کی
جب طور کو پھونکا تھا اب دل کو جلانا ہے

محدود زباں کب تک افسانہ محبت کا
آنکھوں سے بھی کہنا ہے دل سے بھی سنانا ہے

اللہ رے تنظیم حیرت کدۂ ہستی
دیکھو تو حقیقت ہے سمجھو تو فسانا ہے

آہیں بھی نہیں رکتیں نالے بھی نہیں تھمتے
اور ان کو محبت کا افسانہ سنانا ہے

وہ حسن مجسم ہیں ہم عشق مکمل ہیں
ان کا بھی زمانہ ہے اپنا بھی زمانا ہے

جلوے کہیں چھپتے ہیں نظریں کہیں رکتی ہیں
پردہ نہ اٹھانا بھی پردہ ہی اٹھانا ہے

بلبل کی محبت سے وہ راز رہے کب تک
کلیوں کی زباں پر جو مبہم سا فسانا ہے

تدبیر بھی یہ کہہ کر رخصت ہوئی فرقت میں
تقدیر کی دنیا ہے قسمت کا زمانا ہے

کچھ درد کے پہلو ہیں کچھ یاس کی باتیں ہیں
افسانہ مرا کیا ہے رونا ہے رلانا ہے

ناکام محبت کی اللہ رے مجبوری
جینے کی نہیں فرصت مرنے کو زمانا ہے

کیا قہر ہے اے باسطؔ یہ طبع حیا پرور
ان کی ہی محبت ہے ان سے ہی چھپانا ہے