EN हिंदी
جیسا ہوں جس حال میں ہوں اچھا ہوں میں | شیح شیری
jaisa hun jis haal mein hun achchha hun main

غزل

جیسا ہوں جس حال میں ہوں اچھا ہوں میں

ندیم بھابھہ

;

جیسا ہوں جس حال میں ہوں اچھا ہوں میں
تم نے زندہ سمجھا تو زندہ ہوں میں

اک آواز کے آتے ہی مر جاؤں گا
اک آواز کے سننے کو زندہ ہوں میں

کھلے ہوئے دروازے دستک بھول چکے
اندر آ جاؤ پہچان چکا ہوں میں

اور کوئی پہچان مری بنتی ہی نہیں
جانتے ہیں سب لوگ کہ بس تیرا ہوں میں

جانے کس کو راضی کرنا ہے مجھ کو
جانے کس کی خاطر ناچ رہا ہوں میں

اب تو یہ بھی یاد نہیں کہ محبت میں
کب سے تیرے پاس ہوں اور کتنا ہوں میں