EN हिंदी
جہاں تک عشق کی توفیق ہے رنگیں بناتے ہیں | شیح شیری
jahan tak ishq ki taufiq hai rangin banate hain

غزل

جہاں تک عشق کی توفیق ہے رنگیں بناتے ہیں

دل شاہجہاں پوری

;

جہاں تک عشق کی توفیق ہے رنگیں بناتے ہیں
وہ سنتے ہیں ہم ان کو سر گذشت دل سناتے ہیں

ادھر حق الیقیں ہے اب وہ آتے اب وہ آتے ہیں
ادھر انجم مری اس ذہنیت پر مسکراتے ہیں

شب غم اور مہجوری یہ عالم اور مجبوری
ٹپک پڑتے ہیں آنسو جب وہ ہم کو یاد آتے ہیں

وہیں سے درس حسن و عشق کا آغاز ہوتا ہے
جہاں سے واقعات زندگی ہم بھول جاتے ہیں

ہمیں کچھ عشق کے مفہوم پر ہے تبصرہ کرنا
اک آہ سرد کو عنوان شرح غم بناتے ہیں

بہا کر اشک خوں کھینچی تھیں جو آئینۂ دل میں
ہم ان موہوم تصویروں کو اب رنگیں بناتے ہیں

شباب‌ زندگی جلووں کا اک معصوم نظارہ
ہمیں اے دل وہ افسانے ابھی تک یاد آتے ہیں