EN हिंदी
جہاں سراب نہیں تھی وہاں سراب ملے | شیح شیری
jahan sarab nahin thi wahan sarab mile

غزل

جہاں سراب نہیں تھی وہاں سراب ملے

سعید الزماں عباسی

;

جہاں سراب نہیں تھی وہاں سراب ملے
حقیقتوں کو ٹٹولا گیا تو خواب ملے

ہر ایک سمت سے آواز بازگشت آئی
اس آرزو میں پکارا تھا کچھ جواب ملے

ہمیں بہار کے آثار کی توقع تھی
رخ چمن پہ نشانات انقلاب ملے

کہانیوں کی کتابوں میں اب ملیں تو ملیں
وہ خوش نظر جنہیں ذروں میں آفتاب ملے