جہاں سراب نہیں تھی وہاں سراب ملے
حقیقتوں کو ٹٹولا گیا تو خواب ملے
ہر ایک سمت سے آواز بازگشت آئی
اس آرزو میں پکارا تھا کچھ جواب ملے
ہمیں بہار کے آثار کی توقع تھی
رخ چمن پہ نشانات انقلاب ملے
کہانیوں کی کتابوں میں اب ملیں تو ملیں
وہ خوش نظر جنہیں ذروں میں آفتاب ملے

غزل
جہاں سراب نہیں تھی وہاں سراب ملے
سعید الزماں عباسی