جہاں رقص کرتے اجالے ملے
وہیں دل کے ٹوٹے شوالے ملے
نہ پوچھو بہاروں کے رحم و کرم
کہ پھولوں کے ہاتھوں میں چھالے ملے
مری تیرہ بختی اور ان کی ہنسی
سیاہی میں کرنوں کے بھالے ملے
نہ کچھ موتیوں کی کمی تھی مگر
بھنور سے ہمیں صرف ہالے ملے
میں وہ روشنی کا نگر ہوں جہاں
چراغوں کے چہرے بھی کالے ملے
دماغوں سے ان کو مٹاؤ گے کیا
کتابوں سے جن کے حوالے ملے
ہماری وفائیں ٹھٹھرتی رہیں
تمہیں رحمتوں کے دوشالے ملے
تھی راہیؔ کی منزل بھی سب سے الگ
اسے ہم سفر بھی نرالے ملے
غزل
جہاں رقص کرتے اجالے ملے
سوہن راہی