جہاں پہ ڈوب گیا تھا کبھی ستارہ مرا
اسی افق پہ جہاں تاب ہے نظارہ مرا
یہی ہوا کہ پرندے فضا میں تیر گئے
نہ کام آئیں مری بندشیں نہ چارہ مرا
ہوائے دشت بھی مجنوں صفت نہیں ہے اگر
تو اس مقام پہ شاید نہ ہو گزارہ مرا
ابھی تو حرف تمنا لکھا نہیں میں نے
ابھی سے کیوں ورق جاں ہے پارہ پارہ مرا
نہ آگ لگتی نہ تقسیم جسم و جاں ہوتی
فغاں کہ شہر ستم پر نہیں اجارہ مرا
وہ تیرگی ہے کہ راہ خیال بھی گم ہے
نہ آسمان ہے روشن نہ استعارہ مرا
نہ کوئی دشت منور ہوا نہ در نامیؔ
نواح غیر میں جل بجھ گیا شرارہ مرا

غزل
جہاں پہ ڈوب گیا تھا کبھی ستارہ مرا
نامی انصاری