EN हिंदी
جہاں پہ ڈوب گیا تھا کبھی ستارہ مرا | شیح شیری
jahan pe Dub gaya tha kabhi sitara mera

غزل

جہاں پہ ڈوب گیا تھا کبھی ستارہ مرا

نامی انصاری

;

جہاں پہ ڈوب گیا تھا کبھی ستارہ مرا
اسی افق پہ جہاں تاب ہے نظارہ مرا

یہی ہوا کہ پرندے فضا میں تیر گئے
نہ کام آئیں مری بندشیں نہ چارہ مرا

ہوائے دشت بھی مجنوں صفت نہیں ہے اگر
تو اس مقام پہ شاید نہ ہو گزارہ مرا

ابھی تو حرف تمنا لکھا نہیں میں نے
ابھی سے کیوں ورق جاں ہے پارہ پارہ مرا

نہ آگ لگتی نہ تقسیم جسم و جاں ہوتی
فغاں کہ شہر ستم پر نہیں اجارہ مرا

وہ تیرگی ہے کہ راہ خیال بھی گم ہے
نہ آسمان ہے روشن نہ استعارہ مرا

نہ کوئی دشت منور ہوا نہ در نامیؔ
نواح غیر میں جل بجھ گیا شرارہ مرا