جہاں پہ بسنا ہے مجھ کو اب وہ جہان ایجاد ہو رہا ہے
نئی زمیں اور اک نیا آسمان ایجاد ہو رہا ہے
کسی گلی میں سرائے فانی کی تم کو اب ہم نہیں ملیں گے
وہ قریۂ جاوداں میں اپنا مکان ایجاد ہو رہا ہے
وہ جلد پہنچے گا تم تلک تم سنانی اپنی اسے سنانا
بس ایک لمحہ رکو مرا ترجمان ایجاد ہو رہا ہے
تم اک کنارا ہم اک کنارا زمانہ آب رواں ہو جیسے
یہ فاصلہ اب ہمارے ہی درمیان ایجاد ہو رہا ہے
بدن سے میرے وہ پوچھتی ہے بتاؤ عاشق کہاں ہے میرا
دھڑک کے دل یہ جواب دیتا ہے جان ایجاد ہو رہا ہے
بہت چلایا گیا ہے ہم کو خبر ہو اس تیز دھوپ کو اب
ہمارا دشت تپاں میں اک سائبان ایجاد ہو رہا ہے
غزل
جہاں پہ بسنا ہے مجھ کو اب وہ جہان ایجاد ہو رہا ہے
شہزاد رضا لمس