EN हिंदी
جہاں پہ بسنا ہے مجھ کو اب وہ جہان ایجاد ہو رہا ہے | شیح شیری
jahan pe basna hai mujhko ab wo jahan ijad ho raha hai

غزل

جہاں پہ بسنا ہے مجھ کو اب وہ جہان ایجاد ہو رہا ہے

شہزاد رضا لمس

;

جہاں پہ بسنا ہے مجھ کو اب وہ جہان ایجاد ہو رہا ہے
نئی زمیں اور اک نیا آسمان ایجاد ہو رہا ہے

کسی گلی میں سرائے فانی کی تم کو اب ہم نہیں ملیں گے
وہ قریۂ جاوداں میں اپنا مکان ایجاد ہو رہا ہے

وہ جلد پہنچے گا تم تلک تم سنانی اپنی اسے سنانا
بس ایک لمحہ رکو مرا ترجمان ایجاد ہو رہا ہے

تم اک کنارا ہم اک کنارا زمانہ آب رواں ہو جیسے
یہ فاصلہ اب ہمارے ہی درمیان ایجاد ہو رہا ہے

بدن سے میرے وہ پوچھتی ہے بتاؤ عاشق کہاں ہے میرا
دھڑک کے دل یہ جواب دیتا ہے جان ایجاد ہو رہا ہے

بہت چلایا گیا ہے ہم کو خبر ہو اس تیز دھوپ کو اب
ہمارا دشت تپاں میں اک سائبان ایجاد ہو رہا ہے