جہاں نفاق کے شعلے ملیں بجھا کے چلو
چراغ امن و محبت کا تم جلا کے چلو
تمہارے بعد بھی آئیں گے قافلے یارو
ملیں جو راہ میں کانٹے انہیں ہٹا کے چلو
ابھی تو کام انہیں بھی بہت سے کرنے ہیں
نمود صبح ہے سوتوں کو بھی جگا کے چلو
اشارہ وقت کا یہ ہے کہ اے جہاں والو
نیاز و ناز کی تفریق کو مٹا کے چلو
بھٹک رہے ہوں جو راہوں میں دیں گے تم کو دعا
بجھے چراغ سر رہ گزر جلا کے چلو
تمہیں بھی زندگیٔ جاوداں میسر ہو
وفا کی راہ میں دل کو اگر مٹا کے چلو
ملے ہیں ہوش و خرد اس لئے تمہیں ساقیؔ
جنوں کی راہ میں ہوش و خرد لٹا کے چلو
غزل
جہاں نفاق کے شعلے ملیں بجھا کے چلو
اولاد علی رضوی