EN हिंदी
جہاں میں خود کو بنانے میں دیر لگتی ہے | شیح شیری
jahan mein KHud ko banane mein der lagti hai

غزل

جہاں میں خود کو بنانے میں دیر لگتی ہے

فیاض رشک

;

جہاں میں خود کو بنانے میں دیر لگتی ہے
کسی مقام پہ آنے میں دیر لگتی ہے

عروج وقت پہ جانے میں دیر لگتی ہے
ہر ایک علم کو پانے میں دیر لگتی ہے

پھر ان کے پاس بھی جانے میں دیر لگتی ہے
ہمیشہ ان کو منانے میں دیر لگتی ہے

ہمارے شہر محلے گلی کا اب ماحول
بگڑ گیا تو بنانے میں دیر لگتی ہے

انا کی سوچ کو یا پھر انا کے ہونٹوں کو
غموں کا حال بتانے میں دیر لگتی ہے

ہے حسن والوں کا انداز یہ زمانے میں
ہے عشق پھر بھی جتانے میں دیر لگتی ہے

یہ بات آئے گی تم کو سمجھ میں کب فیاضؔ
بلندی ملنے میں پانے میں دیر لگتی ہے