جہاں میں ہر بشر مجبور ہو ایسا نہیں ہوتا
ہر اک راہی سے منزل دور ہو ایسا نہیں ہوتا
تعلق ٹوٹنے کا غم کبھی ہم سے بھی پوچھو تم
تمہارا زخم ہی ناسور ہو ایسا نہیں ہوتا
گواہوں کو تو بک جانے کی مجبوری رہی ہوگی
ہمیں بھی فیصلہ منظور ہو ایسا نہیں ہوتا
محبت جرم ہے تو پھر سزا بھی ایک جیسی ہو
کوئی رسوا کوئی مشہور ہو ایسا نہیں ہوتا
کتابوں کی ہیں یہ باتیں کتابوں ہی میں رہنے دو
کوئی مفلس کبھی مسرور ہو ایسا نہیں ہوتا
کوئی مصرعہ اگر دل میں اتر جائے غنیمت ہے
تغزل سے غزل بھرپور ہو ایسا نہیں ہوتا
کبھی پیتا ہے عنبرؔ زندگی کے غم بھلانے کو
وہ ہر شب ہی نشے میں چور ہو ایسا نہیں ہوتا
غزل
جہاں میں ہر بشر مجبور ہو ایسا نہیں ہوتا
عنبر کھربندہ