EN हिंदी
جہاں میں حال مرا اس قدر زبون ہوا | شیح شیری
jahan mein haal mera is qadar zabun hua

غزل

جہاں میں حال مرا اس قدر زبون ہوا

اکبر الہ آبادی

;

جہاں میں حال مرا اس قدر زبون ہوا
کہ مجھ کو دیکھ کے بسمل کو بھی سکون ہوا

غریب دل نے بہت آرزوئیں پیدا کیں
مگر نصیب کا لکھا کہ سب کا خون ہوا

وہ اپنے حسن سے واقف میں اپنی عقل سے سیر
انہوں نے ہوش سنبھالا مجھے جنون ہوا

امید چشم مروت کہاں رہی باقی
ذریعہ باتوں کا جب صرف ٹیلیفون ہوا

نگاہ گرم کرسمس میں بھی رہی ہم پر
ہمارے حق میں دسمبر بھی ماہ جون ہوا