EN हिंदी
جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا | شیح شیری
jahan main hone ko ai dost yun to sab hoga

غزل

جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا

شہریار

;

جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا
ترے لبوں پہ مرے لب ہوں ایسا کب ہوگا

اسی امید پہ کب سے دھڑک رہا ہے دل
ترے حضور کسی روز یہ طلب ہوگا

مکاں تو ہوں گے مکینوں سے سب مگر خالی
یہاں بھی دیکھوں تماشا یہ ایک شب ہوگا

کوئی نہیں ہے جو بتلائے میرے لوگوں کو
ہوا کے رخ کے بدلنے سے کیا غضب ہوگا

نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے ایسا حاکم شہر
جو حادثہ نہیں پہلے ہوا وہ اب ہوگا