جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا
ترے لبوں پہ مرے لب ہوں ایسا کب ہوگا
اسی امید پہ کب سے دھڑک رہا ہے دل
ترے حضور کسی روز یہ طلب ہوگا
مکاں تو ہوں گے مکینوں سے سب مگر خالی
یہاں بھی دیکھوں تماشا یہ ایک شب ہوگا
کوئی نہیں ہے جو بتلائے میرے لوگوں کو
ہوا کے رخ کے بدلنے سے کیا غضب ہوگا
نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے ایسا حاکم شہر
جو حادثہ نہیں پہلے ہوا وہ اب ہوگا
غزل
جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا
شہریار