جہاں معبود ٹھہرایا گیا ہوں
وہیں سولی پہ لٹکایا گیا ہوں
سنا ہر بار میرا کلمۂ صدق
مگر ہر بار جھٹلایا گیا ہوں
کبھی ماضی کا جیسے تذکرہ ہو
زباں پر اس طرح لایا گیا ہوں
ابھی تدفین باقی ہے ابھی تو
لہو سے اپنے نہلایا گیا ہوں
دوامی عظمتوں کے مقبرے میں
ہزاروں بار دفنایا گیا ہوں
ترس کیسا کہ اس دار البلا میں
ازل کے دن سے ترسایا گیا ہوں
نہ جانے کون سے سانچے میں ڈھالیں
ابھی تو صرف پگھلایا گیا ہوں
میں اس حیرت سرائے آب و گل میں
بحکم خاص بھجوایا گیا ہوں
غزل
جہاں معبود ٹھہرایا گیا ہوں
رئیس امروہوی