جہاں کچھ لوگ دیوانے بنے ہیں
بڑے دلچسپ افسانے بنے ہیں
حقیقت کچھ تو ہوتی ہے یقیناً
کہیں جھوٹے بھی افسانے بنے ہیں
بہت نازاں تھے جو فرزانگی پر
انہیں دیکھا تو دیوانے بنے ہیں
کہ انداز نظر کی آذری سے
دلوں میں کتنے بت خانے بنے ہیں
جو شعلہ شمع کے دل میں ہے روشن
اسی شعلے سے پروانے بنے ہیں
یہ کس ساقی کا فیضان نظر ہے
چمن میں پھول پیمانے بنے ہیں
قیامت تھا مرا محفل سے اٹھنا
نہ جانے کتنے افسانے بنے ہیں
مری دیوانگی پر ہنسنے والے
بزعم خویش فرزانے بنے ہیں
جلی ہیں ذہن میں یادوں کی شمعیں
تصور میں صنم خانے بنے ہیں
بہ نام غم بہ عنوان محبت
جنوں افروز افسانے بنے ہیں
زمانے سے ہو یزدانیؔ گلہ کیا
کہ جو اپنے تھے بیگانے بنے ہیں

غزل
جہاں کچھ لوگ دیوانے بنے ہیں
یزدانی جالندھری