EN हिंदी
جہاں کہیں بھی ترے نام کی دہائی دی | شیح شیری
jahan kahin bhi tere nam ki duhai di

غزل

جہاں کہیں بھی ترے نام کی دہائی دی

راحت سرحدی

;

جہاں کہیں بھی ترے نام کی دہائی دی
مجھے پلٹ کے خود اپنی صدا سنائی دی

نگل رہی تھی مرے آئنوں کی تاریکی
کہ پھر کہیں سے اچانک کرن دکھائی دی

ترے جمال نے بخشی نگاہ مٹی کو
ترے خیال نے توفیق لب کشائی دی

عطا ہے اس کی دیا دل مجھے سمندر کا
بنا کے چاند تجھے جس نے دل ربائی دی

سنا ہے پھر کہیں اندھے تماش بینوں نے
کسی چراغ کو کل داد خوش نمائی دی

تو عمر بیت چکی تھی چمن مہکنے کی
جب اس نے قید سے راحتؔ مجھے رہائی دی