جہاں جہاں پر قدم رکھو گے تمہیں ملے گی وہیں اداسی
یہ راز کچھ اس طرح سمجھ لو مکاں مرا ہے مکیں اداسی
سمے کی آنکھوں سے دیکھیے تو ہر ایک کھنڈر میں چھپے ملیں گے
کہیں پہ بچپن کہیں جوانی کہیں بڑھاپا کہیں اداسی
مرے شبستاں کے پاس کوئی بری طرح کل سسک رہا تھا
میں اس کے سینے سے لگ کے بولا نہیں اداسی نہیں اداسی
بدھائی چہکیں دعائیں گونجی تمام چہرے خوشی سے جھومے
قبول ہے تین بار بولی ایک پردہ نشیں اداسی
غزل
جہاں جہاں پر قدم رکھو گے تمہیں ملے گی وہیں اداسی
آیوش چراغ