EN हिंदी
جہاں جہاں بھی ہوس کا یہ جانور جائے | شیح شیری
jahan jahan bhi hawas ka ye jaanwar jae

غزل

جہاں جہاں بھی ہوس کا یہ جانور جائے

نسیم عباسی

;

جہاں جہاں بھی ہوس کا یہ جانور جائے
دلوں سے مہر و محبت کی فصل چر جائے

کھلے ہیں اونچی حویلی کے پالتو کتے
فقیر راہ ذرا دیکھ بھال کر جائے

وہیں سے ہوں میں جہاں سے دکھائی دیتا ہوں
وہیں تلک ہوں جہاں تک مری نظر جائے

ہے کوئی دیر سے اس پار منتظر میرا
رکا ہوا ہوں کہ ندی ذرا اتر جائے

وہ باد تند ہے ہر پیڑ کی یہ کوشش ہے
ہوا کے ساتھ کوئی دوسرا شجر جائے

حدود ذات سے آگے خداؤں کی حد ہے
میں سوچتا ہوں اگر ذہن کام کر جائے

بھری پڑی ہے عفونت سے انچ انچ زمیں
اس ایک پھول کی خوشبو کدھر کدھر جائے

ابھی تلک ترے رستے میں پل صراط پہ ہے
گزرنے والا ضروری نہیں گزر جائے

نسیمؔ گاؤں کی مسجد میں رات کاٹے گا
اک اجنبی سا مسافر ہے کس کے گھر جائے