EN हिंदी
جہاں ہے قد اس کا جلوہ فرما تو سرو واں کس حساب میں ہے | شیح شیری
jahan hai qad us ka jalwa-farma to sarw wan kis hisab mein hai

غزل

جہاں ہے قد اس کا جلوہ فرما تو سرو واں کس حساب میں ہے

نظیر اکبرآبادی

;

جہاں ہے قد اس کا جلوہ فرما تو سرو واں کس حساب میں ہے
وہ قامت ایسا ہے کچھ قیامت قیامت اس کی رکاب میں ہے

یہ سب غلط ہے جو یوں ہیں کہتے کہ اس کا مکھڑا نقاب میں ہے
نقاب کیا ہے وہ شرمگیں تو نقاب سے بھی حجاب میں ہے

وہ گورا پنڈا اور اس میں سرخی مگر خدا نے لے سر سے تا پا
کیا ہے میدا تو موتیوں کا اور اس کو گوندھا شہاب میں ہے

جھپک جو مکھڑے کی دیکھی اس کے تو ہم نے اپنے یہ دل میں جانا
انہی کے پرتو سے مہ ہے روشن اسی کا نور آفتاب میں ہے

رہے گا محبوب جس مکاں میں تو واں ہی دیکھیں گے اس کو جا کر
غرض وہ جس کا کہ نام دل ہے یہ دھن اس عالی جناب میں ہے

جو غصہ ہو کر وہ دیوے گالی تو اس ادا سے کہ ہم تو کیا ہیں
فرشتے غش ہو کے لوٹ جاویں یہ لطف اس کے عتاب میں ہے

بندھا ہے جب سے خیال اس کا عجب طرح کی لگن لگی ہے
کبھی وہ دل میں کبھی وہ جی میں کبھی وہ چشم پر آب میں ہے

وہی ادھر ہے وہی ادھر ہے وہی زباں پر وہی نظر میں
جو جاگتا ہوں تو دھیان میں ہے جو سو گیا ہوں تو خواب میں ہے

نظیرؔ سیکھے سے علم رسمی بشر کی ہوتی ہیں چار آنکھیں
پڑھے سے جس کے ہوں لاکھ آنکھیں وہ علم دل کی کتاب میں ہے