جہان حسن و نظر سے کنارہ کرنا ہے
وجود شب کو مجھے استعارہ کرنا ہے
مرے دریچۂ دل میں ٹھہر نہ جائے کہیں
وہ ایک خواب کہ جس کو ستارہ کرنا ہے
تمام شہر اندھیروں میں ڈوب جائے گا
ہوا کو ایک ہی اس نے اشارہ کرنا ہے
یہ قربتوں کے ہیں لمحے انہیں غنیمت جان
انہی دنوں کو تو ہم نے پکارا کرنا ہے
وہ دوستوں کو بتائے گا پیار کا قصہ
اور اس نے ذکر بہت کم ہمارا کرنا ہے
مری نگاہ میں جچتا نہیں کوئی آصفؔ
وصال یار کو حاصل دوبارہ کرنا ہے
غزل
جہان حسن و نظر سے کنارہ کرنا ہے
آصف شفیع