جہان فکر و نظر کا ثبات لے کے گیا
وہ صرف دل ہی نہیں کائنات لے کے گیا
وہ عہد رفتہ وہ الفت وہ احترام وفا
گیا تو ساتھ میں ساری صفات لے کے گیا
بھٹک رہے تھے سراب نظر لیے ہر سو
شعور عشق جہاں دل کو ساتھ لے کے گیا
میں صرف اس کو تغافل کہوں تو کیسے کہوں
گیا تو ساتھ میں ہر التفات لے کے گیا
غرور لے کے مرا اختیار ہستی کا
تو اپنی فکر حیات و ممات لے کے گیا
لحد وہی ہے مگر آ چکے نئے مردے
تو وقت لاش کی سب باقیات لے کے گیا
ضمیر بیچنے والے وہ تیرا سودا گر
ضمیر ہی نہیں ذات و صفات لے کے گیا
وہ اور کچھ بھی نہ رکھتا تھا جسم و جاں کے سوا
سنا شہیدؔ متاع حیات لے کے گیا
غزل
جہان فکر و نظر کا ثبات لے کے گیا
عزیز الرحمن شہید فتح پوری