جہاں دریا کہیں اپنے کنارے چھوڑ دیتا ہے
کوئی اٹھتا ہے اور طوفان کا رخ موڑ دیتا ہے
مجھے بے دست و پا کر کے بھی خوف اس کا نہیں جاتا
کہیں بھی حادثہ گزرے وہ مجھ سے جوڑ دیتا ہے
بچھڑ کے تجھ سے کچھ جانا اگر تو اس قدر جانا
وہ مٹی ہوں جسے دریا کنارے چھوڑ دیتا ہے
محبت میں ذرا سی بے وفائی تو ضروری ہے
وہی اچھا بھی لگتا ہے جو وعدے توڑ دیتا ہے
غزل
جہاں دریا کہیں اپنے کنارے چھوڑ دیتا ہے
وسیم بریلوی