جہاں چوکھٹ ہے واں زینہ تھا پہلے
مرا مہمان نا بینا تھا پہلے
محبت کی مروج داستاں میں
کہیں مرنا کہیں جینا تھا پہلے
میں دیواروں سے بھی سچ بولتا تھا
مرے کمرے میں آئینہ تھا پہلے
کسی رخسار کا تل بن چکا ہے
ہمارے دل میں جو کینہ تھا پہلے
جسے اب تحفتاً لوٹا رہے ہو
مرے اجداد سے چھینا تھا پہلے
غزل
جہاں چوکھٹ ہے واں زینہ تھا پہلے
سرفراز زاہد