EN हिंदी
جگ مگ جگ مگ اس کی آنکھیں میرا سینہ جلتا تھا | شیح شیری
jagmag jagmag uski aankhen mera sina julta tha

غزل

جگ مگ جگ مگ اس کی آنکھیں میرا سینہ جلتا تھا

نور بجنوری

;

جگ مگ جگ مگ اس کی آنکھیں میرا سینہ جلتا تھا
چاند ہمارے آگے آگے مشعل لے کر چلتا تھا

راہ گزر تھی مہکی مہکی ایک طلسمی خوشبو سے
تیز ہوا میں اس کا آنچل کیا کیا رنگ بدلتا تھا

جھلمل جھلمل کرتے سپنے پہلی پہلی چاہت کے
سینۂ شب پر اس کے قدم تھے یا خورشید نکلتا تھا

پھول سا چہرہ دہکا دہکا زلفوں کی شادابی میں
عالم امکاں چپکے چپکے اپنی آنکھیں ملتا تھا

سرخ لبوں کی پنکھڑیاں جب ہولے سے کھل جاتی تھیں
قوس قزح کا ریشم ان پر شبنم وار مچلتا تھا

ایک پرندہ چیخ رہا تھا مسجد کے مینارے پر
دور کہیں گنگا کے کنارے آس کا سورج ڈھلتا تھا

شہر وفا میں جا نکلے تھے ہم بھی نور سے ملنے کو
وہ دیوانہ اک پرچھائیں کے ہم راہ ٹہلتا تھا