جگہ جگہ سے شکستہ ہیں خم ہیں دیواریں
نہ جانے کتنے گھروں کا بھرم ہیں دیواریں
چھتوں کا ذکر ہی کیا ان کو لے اڑی ہے ہوا
اب حادثات کے زیر قدم ہیں دیواریں
برستی بارشوں میں ہوں گی موجب خطرہ
ابھی تو دھوپ میں ابر کرم ہیں دیواریں
ہمارے خیمے طنابوں کے بل پہ قائم ہیں
چھتیں تو خوب میسر ہیں کم ہیں دیواریں
قدیم شہروں میں ہر سو قدم قدم بکھری
پرانی راہ گزاروں میں ضم ہیں دیواریں
کہیں دریچے ہیں شان و شکوہ کے مرثیہ خواں
کہیں مزار وقار و حشم ہیں دیواریں
یہ فرط گریہ و زاری کا ہے اثر منشاؔ
زمیں مکانوں کی گیلی ہے نم ہیں دیواریں

غزل
جگہ جگہ سے شکستہ ہیں خم ہیں دیواریں
محمد منشاء الرحمن خاں منشاء