جگ میں آتا ہے ہر بشر تنہا
لوٹ جاتا ہے پھر کدھر تنہا
کچھ دعا بھی تو ہو مریض کے نام
کب دوا کا ہوا اثر تنہا
مدتوں خود کو ہی تراشا ہے
سیپ میں رہ کے اک گہر تنہا
عمر بھر سب کے کام آیا جو
رو پڑا خود کو دیکھ کر تنہا
سب مسرت میں ساتھ دیتے ہیں
غم اٹھائیں گے ہم مگر تنہا
ترک الفت جو اس نے کی ہم سے
تھامتے ہم رہے جگر تنہا
چھاؤں میں بیٹھ کر گئے ہیں سبھی
رہ گیا پھر سے اک شجر تنہا
کہکشاں بھی ہے اور تارے بھی
چاند آتا ہے کیوں نظر تنہا
یادوں کے کارواں ملے ہم سے
خود کو سمجھے تھے ہم جدھر تنہا
چار پل وصل کے جو بیت گئے
خود کو پایا ہے کس قدر تنہا
بیچ اپنوں کے رہ کے بھی موناؔ
زندگی ہم نے کی بسر تنہا
غزل
جگ میں آتا ہے ہر بشر تنہا
ایلزبتھ کورین مونا