جفا کی اس سے شکایت ذرا نہیں آتی
وہ یاد ہی ہمیں شکر خدا نہیں آتی
نکل کے تا بہ لب آہ رسا نہیں آتی
کراہتا ہے جو اب دل صدا نہیں آتی
ہماری خاک کی مٹی ہے کیا خراب اے چرخ
کبھی ادھر کو ادھر کی ہوا نہیں آتی
شب وصال کہاں خواب ناز کا موقع
تمہاری نیند کو آتے حیا نہیں آتی
عدو ہماری عیادت کو لے کے آئے انہیں
کہاں یہ مر رہی اب بھی قضا نہیں آتی
لحد پہ آئے تھے دو پھول بھی چڑھا جاتے
ابھی تک آپ میں بوئے وفا نہیں آتی
مری لحد کو وہ ان کا یہ کہہ کر ٹھکرانا
صدائے نعرۂ صد مرحبا نہیں آتی
ستم ہے اور مرے دل شکن کا یہ کہنا
شکست شیشۂ دل کی صدا نہیں آتی
جلالؔ ہم یہ نہ مانیں گے تو اسے نہیں یاد
تجھے کبھی کوئی ہچکی بھی کیا نہیں آتی
غزل
جفا کی اس سے شکایت ذرا نہیں آتی
جلالؔ لکھنوی