EN हिंदी
جفا کے بعد ہوا ہے مگر ملال تو ہے | شیح شیری
jafa ke baad hua hai magar malal to hai

غزل

جفا کے بعد ہوا ہے مگر ملال تو ہے

خضر برنی

;

جفا کے بعد ہوا ہے مگر ملال تو ہے
خوشا نصیب انہیں پھر مرا خیال تو ہے

عدو کی بزم طرب میں شریک کیا ہوتے
مزاج دوست میں اب تک بھی اشتعال تو ہے

زباں پہ حرف و حکایات کیا ضروری ہیں
گریباں چاک دکھانا ہی عرض حال تو ہے

کسی کی راہ محبت میں گامزن ہونا
حیات کا یہی زرین اک مآل تو ہے

جنون شوق کی تکمیل ہو نہ ہو پھر بھی
کسی کے پیش نظر عشق کا سوال تو ہے

نظر میں پیار اشاروں میں دل کی بات کا عکس
زباں پہ ظاہری اک ان کی قیل و قال تو ہے

تصورات میں کوئی سما رہا ہے خضرؔ
قرار پھر نہ سہی عزم نیک فال تو ہے