جفا کا اس کی گلا مت کرو ہوا سو ہوا
خدا کے واسطے چپکے رہو ہوا سو ہوا
سنے گا وہ تو خفا ہوگا پھر نئے سر سے
کسو کے کان میں کچھ مت کہو ہوا سو ہوا
یہ گفتگو جو کرو ہو سو کچھ بھلی نہیں ہے
کسی سے فعل عبث مت لڑو ہوا سو ہوا
مجھے تو پاک محبت ہے مت کرو بدنام
کہیں خدا کے غضب سے ڈرو ہوا سو ہوا
پھرے ہے وہ تو سپر سیف لے ارے یارو
کسی سے قضیہ نہ ہو دیکھیو ہوا سو ہوا
یہ مرض عشق ہے اس کی دوا کرو موقوف
طبیب مفت میں رسوا نہ ہو ہوا سو ہوا
گرا جو چاہ زنخ میں کوئی تو یوں بولا
سزا ہے غوطہ ذرا کھانے دو ہوا سو ہوا
سنا جب ان نے فلانا تو آج مر ہی گیا
کہا بلا سے مری کوئی مرو ہوا سو ہوا
اگر نصیب میں ایسا ہی کچھ لکھا ہے نینؔ
تو پھیر بس نہیں لاچار جو ہوا سو ہوا
غزل
جفا کا اس کی گلا مت کرو ہوا سو ہوا
نین سکھ