EN हिंदी
جفا کا اس کی گلا مت کرو ہوا سو ہوا | شیح شیری
jafa ka uski gila mat karo hua so hua

غزل

جفا کا اس کی گلا مت کرو ہوا سو ہوا

نین سکھ

;

جفا کا اس کی گلا مت کرو ہوا سو ہوا
خدا کے واسطے چپکے رہو ہوا سو ہوا

سنے گا وہ تو خفا ہوگا پھر نئے سر سے
کسو کے کان میں کچھ مت کہو ہوا سو ہوا

یہ گفتگو جو کرو ہو سو کچھ بھلی نہیں ہے
کسی سے فعل عبث مت لڑو ہوا سو ہوا

مجھے تو پاک محبت ہے مت کرو بدنام
کہیں خدا کے غضب سے ڈرو ہوا سو ہوا

پھرے ہے وہ تو سپر سیف لے ارے یارو
کسی سے قضیہ نہ ہو دیکھیو ہوا سو ہوا

یہ مرض عشق ہے اس کی دوا کرو موقوف
طبیب مفت میں رسوا نہ ہو ہوا سو ہوا

گرا جو چاہ زنخ میں کوئی تو یوں بولا
سزا ہے غوطہ ذرا کھانے دو ہوا سو ہوا

سنا جب ان نے فلانا تو آج مر ہی گیا
کہا بلا سے مری کوئی مرو ہوا سو ہوا

اگر نصیب میں ایسا ہی کچھ لکھا ہے نینؔ
تو پھیر بس نہیں لاچار جو ہوا سو ہوا